محروم کھڑا آج ہے کیوں برگ وثمر سے
Mahroom Khara Aaj Ha Kyun Barg O Summer Saa |
محروم کھڑا آج ہے کیوں برگ وثمر سے
یہ پوچھے کوئی جا کے کبھی سوکھے شجر سے
ساحل کی طرف بڑھنے لگی چیر کے لہریں
کشتی جو رُکی تھی ابھی طوفان کے ڈر سے
اِک خواب سا لگتا ہے مجھے اے مرے ہمدم!
دیکھا ہے مجھے آج محبّت کی نظر سے
گر شام سے ملتی ہے مجھے درد کہانی
جینے کا مجھے حوصلہ ملتا ہے سحر سے
اُس بیٹی کی عزّت سے کوئی کھیل گیا یے
ہاتھوں میں کھلونے لیے نکلی تھی جو گھر سے
بخشش ہو مری چُور ہوں زخموں سے خداوند!
تھک ہار کے لوٹی ہوں میں دنیا کے سفر سے
مظلوم بنے کیوں نہ تماشہ یہاں کاجل!
انصاف ہے ڈرنے لگا زردار کے زر سے
0 Comments
please don't enter any spam link in the comment box