بحرِ ہزج مسدس محذوف

مفاعیلن مفاعیلن فعولن


"کرونا" ناتواں انسان ہیں ہم

مگر مت بھولنا طوفان ہیں ہم


یہ دُنیا ختم کر کے کیا کرو گے

فضا میں تُم اکیلے ہی مرو گے


فنا جب کر چکو گے ساری دُنیا

کرو گے یاد پھر تم پیاری دُنیا 


ہمارا ظرف نہ تم آزماؤ 

ہمیں نہ خون کے آنسو رُلاؤ


یہ دُنیا اب نہیں تم سے ڈرے گی

 یہ سینہ تان کر تم سے لڑے گی


سبھی بندے یہاں پر ہیں خدا کے 

ہیں سائے ان پہ ہر لمحہ دعا کے


یہی بہتر ہے کہ جاؤ یہاں سے

فرشتے آ رہے ہیں آسماں سے


یہاں مزدور رہتے ہیں زمیں پر

ہیں فاقے کاٹتے اب بیٹھ کے گھر


مہینوں سے ڈراما کر رہے ہو

زمیں لاشوں سے کیوں تم بھر رہے ہو


سبھی بازار بند رہنے لگے ہیں

برا تم کو سبھی کہنے لگے ہیں


"کرونا" چھوڑ دو بستی ہماری

زمیں کی کوکھ ہے تم نے اُجاڑی


یہاں بیماریاں ہیں ڈھیر ساری

یہاں رہتا ہے سب پہ خوف طاری


ہماری زندگی برباد نہ کر

جہاں سے ہے تو آیا جا وہیں مر


صدا دیتی ہے کاجل زندگی کو

بُلاتی ہے دُعا کی روشنی کو


سمیرا سلیم کاجلؔ

(اسلام آباد)