غزل  (١) 


بحرِ ہندی متقارب مسدس محذوف


پارس ہے تُو چُھو کر مُجھ کو سونا کر دے

کھنکے تیرے پیار کا کنگنا ایسا کر دے

تیرے بِن مَیں جی نہ پاؤں رہ نہ پاؤں

ساجَن میرے حال تُو ایسا میرا کر دے

خود کو بھی مَیں ڈُھونڈ نہ پاؤں اپنے اَندر

اَندر سے تُو مُجھ کو اِتنا گہرا کر دے

تیرے پیار کی چُنری میرے سینے پر ہو

میرے تَن مَن کی صُورت کو پیارا کر دے

بھینچ کے اپنی بانہوں مِیں تُو توڑ دے مُجھ کو

ایسے میرا آج تمام تُو قِصّہ کر دے

سانسیں ڈول کے کھول رہی ہیں راز ہمارے

ایسا کر تُو خود ہی ہر سُو چرچا کر دے

مور محبّت کا اَب کاجؔل رَقْص کرے گا

نخلستان تُو میرے دل کا صحرا کر دے

سمیرا سلیم کاجؔل

-----------------------------------------------


غزل (٢)

بحرِ ہندی متقارب مسدس محذوف


آس کا سُورج ڈُوب رہا ہے دھیرے دھیرے

دل کا بیڑا غرق ہُوا ہے دھیرے دھیرے

اپنے وَقْت کے فرعونوں کو وَقْت آنے پر

وَقْت کے پاؤں نے کُچلا ہے دھیرے دھیرے

صَبْر کا دامن تھام کے مَضبوطی سے رکھنا

دِل کا دَروازہ کُھلتا ہے دھیرے دھیرے

دِل تو صاف چَمکتا لے کر آتے ہیں سب

لیکن کالا یہ ہوتا ہے دھیرے دھیرے

جیسے پیار کے موسم دھرتی پر اُترے ہیں

ایسے دل مِیں تُو اُترا ہے دھیرے دھیرے

خُوشبو اُس کو اپنی بانہوں میں لیتی ہے

پُھول گُلابی جب کِھلتا ہے دھیرے دھیرے

چُپکے چُپکے دیکھی ہے تَصویر تُمہاری

کاجؔل آنکھوں مِیں پھیلا ہے دھیرے دھیرے

سمیرا سلیم کاجؔل

-------------------------------------------------


غزل (٣)

بحرِ ہندی متقارب مسدس محذوف


بیچ کے اپنی غیرت عزّت دار بنے ہیں

جو تھے اپنے وہ غیروں کے یار بنے ہیں

ڈھال بنے گا کون یہاں مَظلوموں کی اَب

سب ہی خنجر، نیزہ اور تلوار بنے ہیں

جن کی بُنیادیں بھی دِیمک چاٹ چُکی ہے

ایسے لوگ بھی رَستے کی دیوار بنے ہیں

اُونچا شَملَہ پَگڑی کا رکھنے والے بھی

شوق سے اَب زرداروں کی شلوار بنے ہیں

بُھوک نچاتی ہے ہر بَندے کو اُنگلی پر

پیٹ کی خاطر سارے کاروبار بنے ہیں

عاشق اور معشوق ہزاروں لاکھوں ہیں پر

سچّے عشق کے قصّے بس دو چار بنے ہیں

ہمدردی کا جن مِیں کاجؔل دَرْس نہیں ہے

ایسے مکتب دھرتی پر بے کار بنے ہیں

سمیرا سلیم کاجؔل

---------------------------------------------


غزل (٤)

بحرِ رمل مسدس محذوف


مَیں نے مٹّی کھود کر دَفنا دیا

مُضطرب زَخمی جگر دَفنا دیا

کون مُجھ سے حال پُوچھے گا یہاں

مَیں نے اپنا آپ گر دَفنا دیا

مُجھ کو پیارا تھا مِرا ماضی بَہت

حال کی خاطر مگر دَفنا دیا

جس پہ روتے تھے پرندے رات دن

ایک دن ایسا شجر دَفنا دیا

ہِجْر کی شب جو مِلا تھا غَم مُجھے

بس وُہی وَقتِ سَحر دَفنا دیا

خواب دیکھا تھا جو تُو نے ایک بار

مَیں نے وہ بھی چشمِ تَر دَفنا دیا

کِس قَدر ہے بے حسی کاجؔل یہاں

ظالموں نے گھر کا گھر دَفنا دیا

سمیرا سلیم کاجؔل

--------------------------------------


غزل (٥)

بحرِ ہزج مسدس محذوف


مَیں کھڑکی کھول کر رکھتی نہیں ہوں

ہَوا کی مُنتظر بیٹھی نہیں ہوں

بہانے پاس آنے کے نہ ڈھونڈو

سمجھتی ہوں مَیں سب بچّی نہیں ہوں

ہزاروں درد مُجھ کو روندتے ہیں

مگر بے درد ہوں روئی نہیں ہوں

چراغوں سے مراسم ہیں پُرانے

مگر مَیں رات بھر جلتی نہیں ہوں

کہا کِس نے تُجھے اتنا بتا دے

کہ تیرے واسطے مَچلی نہیں ہوں

مِرے جذبات مِیں حدّت وُہی ہے

مَیں سنبھلی ہوں ابھی بدلی نہیں ہوں

عجب کاجؔل ہے میری زندگی بھی

سکون و چین سے رہتی نہیں بوں

سمیرا سلیم کاجؔل

----------------------------------------------


غزل (٦)

بحرِ رمل مسدس محذوف


آپ کی آنکھوں میں میرا عکس ہے

دیکھتے ہیں سب یہ ایسا عکس ہے

ہیں پریشانی مِیں لہریں مُبتلا

پانیوں مِیں جب سے بکھرا عکس ہے

جس نے مُجھ کو ہے مکمّل کر دیا

میری آنکھوں مِیں وہ رہتا عکس ہے

سادگی کی راہ پر چلتے چلو

بس یہی اِک زندگی کا عکس ہے

آگ مِیں جلتا ہے جب آنچل کوئی

میری سانسوں کا بھی جلتا عکس ہے

جو مُجھے دُنیا سے کر دے بے خبر

مَیں نے بھی ایسا ہی سوچا عکس ہے

آئینے کے سامنے کاجؔل کھڑی

آئینے مِیں دِل رُبا سا عکس ہے

سمیرا سلیم کاجؔل

------------------------------------------


غزل (٧)

بحرِ ہزج مسدس محذوف


وہ بِچھڑا ہے مُجھے اپنا بنا کر

نکل آگے گیا مُجھ کو گِرا کر

دُھواں تنہائی کا جَلوَت مِیں دیکھا

ہُوئی چُپ چاپ چند آنسو بہا کر

مَیں خود کو آسماں پر دیکھتی تھی

دِیا تھا پُھول جب اُس نے اُٹھا کر

مِری سانسوں پہ آرے چل رہے ہیں

بَدن سے رُوح کو اب تو جُدا کر

یہی احساس میری زندگی ہے

مِلا تھا ایک دن وہ مُسکرا کر

محبّت مِیں نہیں ہیں آزماتے 

محبّت کب ہے ہوتی آزما کر

مِری تو عُمْر کاجؔل مختصر ہے

کرو تم مجھ سے باتیں روز آ کر

سمیرا سلیم کاجؔل

-------------------------------------------


غزل (٨)

بحرِ ہندی۔ متقارب اثرم مقبوض محذوف


شام اُدھاری مانگ رہی ہوں

یارا یاری مانگ رہی ہوں

مت دو مُجھ کو شاہی میوہ

سونف سپاری مانگ رہی ہوں

بھوت سوار ہے گھر جانے کا 

ایک سواری مانگ رہی ہوں

اِک اِک پیسہ ہاتھ پہ رکھ دو

پونجی ساری مانگ رہی ہوں

کاٹوں گی مَیں جڑ سے تم کو

آج مَیں آری مانگ رہی ہوں

پیار کی پچ پہ کھیلوں گی مَیں

اپنی باری مانگ رہی ہوں

رکھنا ہے اب دل پر کاجؔل

پتھّر بھاری مانگ رہی ہوں

سمیرا سلیم کاجؔل

----------------------------------------


غزل (٩)

بحرِ ہندی۔ متقارب اثرم مقبوض محذوف


دُھوپ کا چہرہ چھاؤں جیسا

شہر ہو جیسے گاؤں جیسا

رِشتے تو سب ہی اچھے ہیں

لیکن کون ہے ماؤں جیسا

منزل خود ہی مِل جائے گی

خود کو بنا لے پاؤں جیسا

گردش مِیں ہیں اس کے باسی 

دیس ہے آج خلاؤں جیسا

چاند، ستارے اُڑتے دیکھے

ہے آکاش ہواؤں جیسا

کسرِ نَفسی چھوڑ چُکا ہے

ہے انسان خُداؤں جیسا

کاجؔل مَیں نے چُوم لیا ہے

اس کا نام دُعاؤں جیسا

سمیرا سلیم کاجؔل

---------------------------------------


غزل (١٠)

بحرِ متقارب مثمن سالم


مَیں اپنا نہیں اَب تِرا سوچتی ہوں

تُجھے ہر گھڑی باخُدا سوچتی ہوں

جہاں تیری چاہت پَھلے اور پُھولے 

وُہی اَب تو آب و ہَوا سوچتی ہوں

کبھی آئینے مِیں اگر زُلف دیکھوں 

تو ساون کی کالی گھٹا سوچتی ہوں

مَیں نَفرَت مِیں ڈُوبی ہوئی اس زمیں پر

محبّت بھرا سلسلہ سوچتی ہوں

مری ہر ادا کو اگر ہو سمجھتے 

مُجھے تم بتاؤ مَیں کیا سوچتی ہوں

اگر کوئی پانی پیے بھر کے پیالہ

تڑپ کر مَیں کَرب و بَلا سوچتی ہوں

فنِ شاعری پر نہیں دسترس پر

مَیں کاجؔل ذرا سا جُدا سوچتی ہوں

سمیرا سلیم کاجؔل

--------------------------------------------


غزل (١١)

بحرِ متقارب مثمن سالم


یہ تَندُوری چاہت مُجھے مَت دکھاؤ

یہ دوپل کی راحت مُجھے مَت دکھاؤ

تُمہاری حقیقت سے واقف سبھی ہیں

ارے یہ شرافت مُجھے مَت دکھاؤ

زُبان و اَدَب کے نہ یوں تیر پھینکو

فصاحت، بلاغت  مُجھے مَت دکھاؤ

وَلی تُم ہو کِتنے مَیں سب جانتی ہوں

تماشا، کرامت مُجھے مَت دکھاؤ

خیانت ہے یہ بھی اگر سچ کہوں تو

کسی کی امانت مُجھے مَت دکھاؤ

سمجھتی ہوں نیّت مِیں کیا ہے تُمہاری

اُٹھو یہ جہالت مُجھے مَت دکھاؤ

"فعولن" کی دیوار پر یہ غزل ہے

عروضی سی حالت مُجھے مَت دکھاؤ

فقط صاف کردار کو مانتی ہوں

یہ لفظوں کی طاقت مُجھے مَت دکھاؤ

دلائل سے مانے گی کاجؔل ہمیشہ

یہ جوش خِطابت مُجھے مَت دکھاؤ

سمیرا سلیم کاجؔل