Trip Jordan to Egypt part 1 by sumeira saleem


Trip Jordan to Egypt by sumeira saleem



اُردن اور مصر کا سَفَر
قسط (١)
تحریر:- سمیرا سلیم کاجلؔ
کُچھ آرزوئیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب اُن کی تکمیل کا وقت آتا ہے، تو ہر طرف رنگ بکھرتے محسوس ہوتے ہیں، روشنیاں رقص کرتی سامنے سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ ایک عَجب سی ترنگ، اُمنگ کے پہلو مِیں انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتی ہے۔ نیلی روشنی کی کرنیں، گلابی لباس پہنے آنکھوں کو خیرہ کرنے لگتی ہیں اور یُوں قلبی مسرّت سے بھرے جذبات کے پیالے چھلکنے لگتے ہیں اور دل بے ساختہ اس خُداوند کی توصیف بیان کرنے لگتا ہے جس کے قبضہء قدرت مِیں کائنات کے نظام کی ڈوری ہے۔
اِس بات سے ہر ذِی رُوح اِتفاق کرے گا کہ دِل کی گہرائیوں مِیں مَچلتی خواہشات کی کلیوں کو مہکانے اور آنکھوں مِیں پنپتے خوابوں کو شرمندہء تعبیر کرنے کے لیے، انسان اِحساس و جنون کے حصار مِیں ایک طویل سفر طے کرتا ہے۔
چاہے کوئی بھی کام ہو اس کے آغاز کی بُنیاد، خلوص کی زمین پر رکھنا پڑتی ہے اور یُوں پھر اس پر اپنی مرضی کے مطابق کامیابی کی عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لگن اور شوق کے رَستے مِیں رُکاوٹ بننے والی بہت سی خاردار جھاڑیوں کو جہدِ مسلسل کی درانتی سے کاٹنا پڑتا ہے۔ بے شک رستہ بناتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھنا، یقینا ہمت اور حوصلے کا کام ہے اور یہ کام وُہی کر سکتے ہیں جِن کو خُداوند کی کرم نوازیوں پر مُکمل بھروسہ ہو۔ اگر نیّت صاف ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے، اِرادہ پُختہ ہو اور جذبہ پُرجوش ہو تو کسی بھی قسم کی مشکل، راہ کی دیوار بننے سے پہلے ہزار بار سوچتی ہے۔
یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا یعنی کافی محنت اور کوشش کے بعد آج مجھے بھی لگ رہا تھا کہ میری صاف نیّت کا پھل مُجھے ملنے والا ہے اور میری بچپن کی وہ خواہش پوری ہونے جا رہی ہے، جس کا پُورا ہونا میرے لیے باعث مسرّت ہی نہیں، باعث سعادت بھی تھا۔
میری منزل چند گھنٹوں کی مُسافت پر میری منتظر تھی۔ یعنی ان تمام مقاماتِ مقدّسہ کی زیارت کے لیے اپنے ابو جی کے ساتھ جا رہی تھی جن کا ذکر انجیل مقدّس مِیں ہے۔ رختِ سفر تیار تھا اور ١٤ فروری کو رات ١٠ بجے بذریعہ کار اسلام آباد سے لاہور روانہ ہوئے جہاں سے جدّہ کے لیے فلائیٹ تھی۔
اِہلِ خانہ نے دعاؤں کے سائے میں رخصت کیا اور یُوں ہمارے سفر کی اِبتدا ہوئی۔ بڑے بھائی نعیم کار ڈرائیو کر رہے تھے۔ سرد رات میں اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر بذریعہ جی ٹی روڈ ایک خوبصورت تجربہ تھا۔ سفر تو اس سے پہلے بھی اسلام آباد سے لاہور تک کیے، لیکن آج کیفیت ہی کچھ اور تھی۔ کار پوری رفتار کے ساتھ ہوا کے سرد جھونکوں کو چیرتی ہوئی داتا کی نگری کی طرف بڑھ رہی تھی۔
سڑک کے کَنارے دَرختوں کے جُھنڈ اپنی سرسبز شاخیں ہلا ہلا کر ہمیں مُقدّس سفر کی مبارکباد دیتے ہوئے تیزی سے پیچھے کی طرف جا رہے تھے۔ پہاڑی سلسلہ شروع ہُوا تو رات کے اندھیرے مِیں بلند و بالا پہاڑ دیو قامت قد کاٹھ کے چاک و چوبند محافظوں کی طرح کھڑے محسوس ہوئے۔ کبھی سڑک کے کنارے گھپ اندھیرا اور کبھی روشنیوں مِیں ڈوبی عمارتیں ایسا لگ رہا تھا، مسکراتے ہوئے دیکھ کر مُقدّس راہوں کے مُسافروں کو الوداع کہہ رہی ہوں۔
چھوٹے بڑے شہر، گاؤں، بستیاں، دیہی علاقے کراس کرتے ہوئے، تقریباً چار گھنٹے مسلسل ڈرائیو کے بعد ہم گوجرانوالہ شہر میں داخل ہو چُکے تھے اور ایک چائے کے دھابے پر کچھ دیر سستانے کے لیے ٹھہرے۔ خالص دودھ کی گرما گرم کڑک چائے سے لطف اندوز ہونا بھی بہت ضروری تھا، سو دھواں اڑاتے چائے کے کپ کچھ ہی لمحوں بعد ہمارے ہاتھوں مِیں تھے۔ ایک لمبی ڈرائیو کے بعد کار کو بھی سستانے کی ضرورت تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ خود کسی خرابی کا بہانہ بناتے ہوئے رُک جاتی، بہتر یہی تھا کہ یہ کام خود ہی کر لیا جائے تا کہ چند لمحے کار بھی دم لے اور نعیم بھائی نے ایسا ہی کیا تھا۔ کار سستا رہی تھی اور یہاں گرما گرم چائے کے ساتھ بسکٹ بھی ہمارے قرب سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
گوجرانوالہ شہر کو اللہ حافظ کہا اور اب ہمارا اگلا اسٹاپ کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ کی مسافت پر شاہدرہ تھا اور پھر شاہدرہ سے لاہور ہماری پہلی منزل تھی۔ کیونکہ اگلے دن بذریعہ سعودی ائیر لائن لاہور کے ہوائی اڈے سے جدّہ روانگی تھی۔ قلب و نظر ایک عجب سی خوشی سے سرشار تھے۔ ایک ایک لمحہ یاداشت کی تختی پر اپنے خوشبودار و روشن نقوش چھوڑ رہا تھا۔ رستے مِیں ایک جگہ گاڑیوں کی لمبی قطار لگی تھی، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ آگے کوئی ٹریفک حادثہ ہُوا ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہے۔
خُدا خُدا کر کے ہم شاہدرہ پہنچے، ایک چائے کے ہوٹل پر کار کو رفتار سمیٹنے پر مجبور کیا گیا، قریب ہی پیڑول پمپ بھی تھا، جہاں سے کار کی ٹینکی کی پیاس پر پیٹرول ڈالنا ضروری تھا اگر ایسا نہ کرتے تو یہ موصوفہ پیاس کی شدّت سے سڑک پر ہی بے ہوش ہو جاتی۔ جب کار سے باہر نکلے تو ہوا کے یخ بستہ جھونکے نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا اور وہ استقبال ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ ہم سب ایک بار پھر گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے تا کہ تروتازگی کا احساس برقرار رہے اور کسی حد تک سردی کا بھی تدارک کیا جا سکے۔
شاہدرہ مِیں کچھ لمحے گُزارنے کے بعد ایک بار پھر پاکستان کے قلب کی طرف سفر شروع کیا۔ دورانِ سفر کئی مقامات پر جی ٹی روڈ پر کار کے ہچکولوں سے محسوس ہُوا کہ یہاں جی ٹی روڈ اپنی خستہ حالی کی داستان پیش کر رہا۔ فریاد کر رہا ہے کہ کوئی ہے جو میرا بھی حال احوال پُوچھے، میرے بھی زخموں پر مرہم رکھے۔ لیکن کار کے ٹائر اس کی ہر صدا کو روند رہے تھے۔ کیونکہ یہ صدائیں سننا متعلقہ اداروں کا کام تھا۔ سفر کرنے والے تو سفر کرتے ہیں۔ خیر ہم بھی جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، صبح کی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی پھوٹ رہی تھی اور یہ وہ لمحہ تھا جب ہم پاکستان کے دل مِیں داخل ہو چکے تھے یعنی لاہور پہنچ چکے تھے۔ لاہور ہو اور لاہوری ناشتہ نہ ہو یہ بھلا کیسے ممکن ہے……… (جاری ہے)

Post a Comment

0 Comments