Trip Jordan to Egypt part 2 by sumeira saleem

Trip Jordan to Egypt

Trip Jordan to Egypt part 2 by sumeira saleem

اُردن اور مِصر کا سَفَر
قسط (٢)
تحریر:- سمیرا سلیم کاجلؔ
لاہور مِیں ناشتہ کرنے کی باتیں تو ١٩٦٥ مِیں بھارتی سینا نے بھی کی تھیں، لیکن پاک فوج کے شیر دِل جوانوں نے ایسی سوچ رکھنے والوں کی پتلونیں گیلی کر دیں۔ آج تک وہ اپنی پتلونیں دُھوپ مِیں خُشک کر رہے ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ آؤ تمھیں ناشتہ کرائیں، پھجے کے پائے کھلائیں، داس کلچے کھلائیں، گزشتہ برس اتنا تو جان گئے ہوں گے، کہ ہم پہلے تو مار کر گراتے ہیں، پکڑ کر پھینٹی لگاتے ہیں اور پھر چائے پلا کر چائے کی تعریف بھی کرواتے ہیں۔ بھارتیوں کو ایک کپ چائے کی قیمت تو یاد ہو گی، تو بس پھر ناشتے کی قیمت بھی خود ہی سمجھ جائیں، وہ حشر نشر کِیا جائے گا کہ تاریخ کے صَفحات پر ان کی بربادی کے قصّے رہتی دُنیا تک سَر پیٹتے رہیں گے۔
قَلبِ پاکستان یعنی لاہور مِیں ناشتہ صرف پاکستانی خوش نصیب ہی کر سکتے ہیں، یا پھر وہ خوش نصیب کر سکتے جو کسی دوسرے ملک سے عز ّت و احترام کے ساتھ اس شہر کی سیر کرنے آئیں۔ خیر! ہمیں بھی اِس حوالے سے اپنی خوش نصیبی پر رَشک آ رہا تھا۔ کیونکہ آج ایک بار پھر ہم نے لاہور مِیں ناشتہ جو کرنا تھا۔ لیکن اب کی دفعہ باہمی مشاورت سے یہ طے پایا کہ اس بار "چاچا باسا حلوہ پوری" پوائنٹ پر ناشتہ کیا جائے، جو علّامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے تقریباً دس پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ بَس پھر کیا تھا۔ اگلے ہی لمحے کار نے لاہور کی سڑکوں پر فراٹے بھرنا شروع کر دیے اور ہم کچھ ہی لمحوں بعد "چاچا باسا حلوہ پوری" پوائنٹ پر ناشتہ کرنے کے لیے پہنچ چکے تھے۔
لاہوریوں کے ہجوم سے لگ رہا تھا، کہ یہاں کے ناشتے مِیں کوئی تو خاص بات ہے۔ زندہ دلی مِیں اپنا ثانی نہ رکھنے والے لاہوریے کھانے پینےکے معاملے میں بھی پوری دُنیا مِیں اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ رَج کے کھاتے پیتے ہیں اور اِس قدر کھانے میں کھو جاتے ہیں کہ ڈکار لینا بھی کبھی کبھی تو بھول جاتے ہیں۔ کچھ تو یہ بھی سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ کھا کیا رہے ہیں، بچھیا کا گوشت، بکرے کا گوشت، دیسی مرغی، مچھلی، تیتر، بٹیر یا پھر ………………… چلیں خیر رہنے دیں جو بھی کھائیں ہمارا کیا لینا دینا، ہَم نے بھی آج کُچھ وَقت کے لیے ناشتے کی میز پر سمجھدار لاہوری بننے کی ٹھان لی تھی اور سوچ لیا تھا کہ دُنیا چاہے اِدھر سے اُدھر ہو جائے چاچا باسا کی حلوی پوریوں پر خوب ہاتھ صاف کیے جائیں گے۔
کُچھ ہی دیر بعد دُھواں اُڑاتی خستہ، خستہ پوریاں ہمارے سامنے دیگر لوازمات کے ساتھ جلوہ افروز تھیں۔ جن میں خشک میوہ جات کے ساتھ حلوہ نمایاں تھا۔ اب میز کے میدان مِیں ہم تھے اور خستہ، گرم پوریاں تھیں۔ رات بھر کے سفر کے بعد رَج کے بلکہ یوں کہیے کہ ڈٹ کے ناشتہ کیا اور لاہوری بننے کی بھرپور کوشش کی اور اپنی اس کوشش مِیں ہم کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے تھے۔ کڑک دودھ پتی سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم نے واپس شاعرِ مشرق سے منسوب علّامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا رُخ کیا۔
ائیر پورٹ کی عمارت کے بالکل قریب نعیم بھائی نے ہمیں ڈراپ کیا اور ہم سے اِجازت لی، مَیں نے اور ابّو جی نے انہیں دعائیں دے کر واپس اسلام آباد کے لیے رخصت کیا۔ اور ہم دونوں ائیر پورٹ کی خوبصورت عمارت میں داخل ہوئے۔
گروپ کے چند لوگ ہم سے پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ گروپ لیڈر بھائی کرامت الیاس صاحب نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ کچھ ہی دیر بعد ضروری کاغذی کاروائی اور سفری سامان کی جانچ پڑتال کا مرحلہ شروع ہُوا۔ بھائی کرامت الیاس صاحب نے اپنی راہنمائی میں انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ تمام مراحل سے گزارا۔ اب ہم گروپ کی شکل میں انتظار گاہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہاں فلائیٹ کے انتظار کرنے کا مشکل ترین مرحلہ شروع ہو چکا تھا۔ مقدّس مذہبی مقامات کی زیارت کرنے کے لیے سفر ہو اور درمیان میں انتظار کا دبیز پردہ حائل ہو جائے تو سوئی کی گھڑیاں بھی رُکی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔
ابّو جی انتظار گاہ مِیں گروپ کے دیگر ممبران سے گپ شپ میں مصروف تھے۔ اس دوران گھر سے فون پر ہماری خیریت بھی پوچھی جا رہی تھی۔ نعیم بھائی سے بھی ہم رابطے میں تھے۔ کچھ وقت تو فون پر رابطوں اور ہلکی پھلکی گفتگو میں گزر گیا یہ تو اچھا ہوا کہ پاور بینک ساتھ لے آئی تھی۔ اگر کبھی بیٹری آخری ہچکی لینے لگتی تو اسے فوراََ پاور بینک سے جوڑ کر دوبارہ زندگی جینے پر مجبور کرتی رہی۔ سب سے اچھی بات یہ کہ انتطار گاہ میں سگنلز کا کوئی اشو نہیں تھا۔ اگر سگنلز نہ ہوتے تو انڈرائیڈ موبائل نہ صرف زہر لگنے لگتا بلکہ ننھی سی جان پر بوجھ بھی محسوس ہونے لگتا۔
انٹرنیٹ سے جُڑا سیل فون انتظار کے لمحات میں بہت اچھا دوست ثابت ہو رہا تھا۔ اگر غور کریں تو جدید ٹیکنالوجی بھی خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اور اس بات کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ اس نعمت سے استفادہ کرتے ہیں۔
اس دوران کتابِ رُخ (فیس بُک) کی دیوار پر بھی سفر کی ابتدائی صورتحال سے متعلق عکس و تحریر چسپاں کرنے کا سلسلہ جاری کر چکی تھی۔ جسے بے حد سراہا جا رہا تھا۔ باشعور اور مہذب علم دوست احباب کی جانب سے دعاؤں سے نوازنے کا خوبصورت آغاز ہو چکا تھا۔ جو یقیناً اپنی مثال آپ تھا۔
جیسا کہ یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ میرا تعلق شعر گوئی سے ہے، نثر نگاری کا مجھے اتنا تجربہ نہیں۔ لیکن پھر بھی لکھنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔ کتابِ رُخ (فیس بک) پر علم و ادب کا ذوق رکھنے والے احباب کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے، تعداد میں کمی بیشی کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے وہ ایسے کہ غیر مُہذب افراد کو فہرست سے بھی خارج کرتی رہتی ہوں۔ ایسے لوگ جن کا بُرا کردار ان کے الفاظ کے چناؤ سے چھلکتا ہو۔ انہیں فہرست میں رکھتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دن گیارہ بجے فلائیٹ کا وقت تھا۔ اور دو گھنٹے مزید انتظار کرنا باقی تھا۔ یعنی علّامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر صبح کے نو بج چکے تھے۔ اس دوران ابّو جی سے بھی مختلف موضوعات پر گفتگو ہو رہی تھی۔ بے شک باپ کا سایہ خداوند کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ باپ کی سائے کی قدرو قیمت ان سے پوچھیں جو اس سائے سے محروم ہیں۔ باپ کا سایہ دنیا کی چلچلاتی دھوپ سے بچا لیتا ہے۔ باپ کی شفقت کا کوئی مول نہیں۔
ابّو جی مُجھ سے مختلف موضوعات پر بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس پیار بھرے سائے میں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہُوا۔ ١١ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے جب سعودی ائیر لائن کا جدّہ روانگی کا اعلان کیا گیا اور مسافروں کو ضروری ہدایات بھی دی گئیں۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور اب ہم جہاز میں سوار ہونے کے لیے تمام مسافروں کے ساتھ انتظار گاہ سے نکل چکے تھے۔ مکّہ مکرمہ عمرہ کی نیّت سے جانے والے مسلم مسافر بھی ساتھ تھے۔ ایک روح پرور، پُرکیف منظر تھا ……… (جاری ہے)

Post a Comment

0 Comments