Trip Jordan to Egypt part 3 by sumeira saleem


Trip Jordan to Egypt part 3 by sumeira saleem


اُردن اور مِصر کا سَفر
قسط (٣)
تحریر:- سمیرا سلیم کاجؔل
ایک رُوح پَرور، پُرکیف منظر تھا، جِسے اَلفاظ کے سانچوں مِیں ڈھالنا ممکن نہیں۔ چَمکتے دَمکتے چہروں سے جہاں خوشی چھلک رہی تھی، وہیں طَمانِیَت بھی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا مُقدّس مقامات پر باادب حاضری کی نیّت کرنے والوں پر آسمان سے انوار کی برسات ہو رہی ہو۔ نیک راہوں کے مُسافروں پر تو بادَل ویسے بھی سایہ کرتے ہیں۔ رَستوں کی دُھول بھی پاؤں کے بوسے لیتی ہے۔ اِن کیفیات کے حصار میں فرطِ مسرّت سے آنکھوں کے کناروں کا نم ہو جانا فطری عمل ہے اور میری کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ دل سے نکلنے والی دعاؤں کا رشتہ جب مقبولیت کی گھڑیوں سے مضبوط ہو تو پھر جذبات کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ الفاظ دست بستہ سامنے قطار در قطار جذبات کی لڑی میں سجنے کے لیے منتظر نظر آتے ہیں۔
رَن وے پَر کھڑا سعودی ائر لائن کا طیارہ اپنا سینہ تانے اور پوری شان وشوکت کے ساتھ پر پھیلائے ہَوا میں اُڑنے کے لیے تیار تھا۔ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائر پورٹ پر گرم نرم دھوپ اور ٹھنڈی ہَوا کے جھونکوں نے ماحول کو مزید خوشگوار بنا دیا تھا۔ گلاب و موتیے کی بھینی بھینی خوشبو نے بھی مشام جان کو معطّر کر رکھا تھا۔ غالباً کسی نے عطر یا پرفیوم لگا رکھا ہو گا۔ مسافروں کے ہجوم مِیں ننھّے منّے بچّے بھی نظر آ رہے تھے۔ جن کی خوشی دیدنی تھی۔ ہوائی جہاز کو حیرت سے ٹک ٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے اور یقیناً یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اُڑنے کے بعد اس کا سائز چِیل جتنا کیسے ہو جاتا ہے۔ بچّے تو ایسے معصومانہ سوالات اپنے بڑوں سے پوچھتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
خیر! مَیں اور ابّو جی جہاز میں سوار ہو کر اپنی اپنی نشست پر براجمان ہو چکے تھے۔ جہاز کا عملہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مسافروں کی راہنمائی بھی کر رہا تھا۔ اگر کوئی غلط سیٹ پر بیٹھ بھی گیا تو اسے اس کی سیٹ تک ادب و احترام سے پہنچا دیا گیا تھا۔ مجموعی صورتحال وقتی طور پر افراتفری کی زد میں تھی لیکن چند ہی گھڑیوں بعد ماحول پُرسکون ہو گیا تھا۔
موبائل فونز کی گھنٹیاں بچ رہی تھیں۔ کوئی اپنے پیاروں کے رابطہ نمبرز ڈائل کر رہا تھا تو کوئی فون رسیو کر رہا تھا۔ کان میں پڑتی آوازوں سے یہ بھی صاف محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ مسافروں نے اپنے گھر والوں کو ویڈیو کالز پر لیا ہُوا ہے اور جہاز کے اندر کے ماحول پر دلچسپ گفتگو ہو رہی ہے۔ دھیمے دھیمے قہقہے لگانے کی بھی آوازیں آرہی تھیں۔ دلچسپ نوعیت کے ہلکے پھلکے تبصرے بھی کیے جا رہے تھے۔ خوشی میں ڈوبی بچوں کی بھولی بھالی سی آوازیں سماعتوں کو بھلی محسوس ہو رہی تھیں، جو اپنے دادا، دادی کو بتا رہے تھے کہ وہ جہاز میں سوار ہو چکے ہیں اور ابھی جہاز اُڑا نہیں، بس اڑنے والا ہے۔ جہاز اندر سے بہت بڑا ہے، اور کوئی بچّی اپنی چھوٹی خالہ کو ویڈیو کال پر اپنی جانب متوجہ کر کے بتا رہی تھی کہ چھوٹی خالہ ہم نے جہاز کے پاس کھڑے ہو کر بھی سیلفیاں بنائی تھیں وہ ممّا نے واٹس ایپ اسٹیٹس پر لگائی ہیں ضرور دیکھنا۔
یہاں مَیں اپنی سیٹ پر یہ سب مِلی جُلی آوازیں سُن کر مُسکرا رہی تھی۔ برابر میں ابّو جی مجھے مسکراتا دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ مَیں کیوں مسکرا رہی ہوں۔ لیجیے ابّو جی نے بھی اپنی بیگم یعنی میری امّی جی کو فون مِلا لیا۔ خیر خیریت سے آگاہ کرنے کے بعد لگے ہاتھوں میری بھی بات امّی جی سے بات کروا دی۔ مَیں نے امّی جی سے ان کی کی طبیعت پوچھی اور کہا کہ فکرمند نہ ہوں بلکہ دعاؤں میں یاد رکھیں اور ہم بھی آپ سب کو دعاؤں میں یاد رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی بتا دیا کہ نعیم بھائی لاہور سے اسلام اباد پہنچنے والے ہوں گے۔ جب پہنچ جائیں تو واٹس ایپ پر بتا دیں تا کہ اطمینان ہو جائے کہ بھائی خیریت سے گھر پہنچ گئے ہیں۔ امّی جی نے بھی ضروری ہدایات دیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ اپنے ابّو کا خیال رکھنا اور یقیناً اپنے سرتاج سے یہ کہا ہو گا کہ بیٹی کا خیال رکھنا اور یوں مَیں نے اور ابّو نے بھی رَن وے پر کھڑے جہاز سے گھر بات کر لی۔ کیونکہ بعد مِیں سگنلز غائب ہونے کا اندیشہ بھی تھا۔
آپ مِیں سے اکثر نے جہاز مِیں سفر کیا ہو گا۔ ایک مُلک سے دوسرے مُلک یا ایک شہر سے دوسرے شہر بذریعہ جہاز گئے ہوں گے۔ اگر کسی نے جہاز سے سفر نہیں کیا تو کوئی بات نہیں۔ ٹرین یا کوجز سے سفر تو کیے ہوں گے۔ کچھ لوگ اپنی کاروں میں یا کار کرائے پر لے کر بھی سفر کرتے ہیں۔ ایک ہی شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے موٹرسائیکل پر سفر کیا جاتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی عوام سفر کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مختلف ذرائع سے سفر سب ہی کرتے ہیں۔ یقینا آپ اس بات سے بھی اتفاق کریں گے کہ سفر جہاز سے ہو، ٹرین سے ہو یا بذریعہ کار ہو، تکالیف کی ایسی گٹھڑی ہوتا ہے جسے اٹھائے بغیر مسافر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اگلے وقتوں مِیں اونٹوں، گھوڑوں اور خچروں پر سفر کیا جاتا تھا۔ کئی کئی دن تک مسافروں کے قافلے صحراؤں، دشوار گزار راستوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ اس زمانے کی سفری تکالیف کا سوچتے ہوئے بھی موجودہ دور کا انسان گھبرا جائے۔ پُرانے زمانے میں لوگ ریگستان میں سفر کرتے ہوئے جب کسی نخلستان تک پہنچتے تھے تو کچھ دیر رک کر مزید سفر کے لیے تازہ دم ہونے کو ترجیح دیتے تھے۔ اپنے مشکیزوں، مشکوں میں پانی بھر لیا کرتے تھے۔ خود بھی پانی پیتے اور جانوروں کو بھی پانی پلایا کرتے۔ کھجوروں سے یا موسمی پھلوں سے اپنی بھوک مٹا لیا کرتے تھے۔ سفر اُس زمانے میں بھی تکلیف دہ تھا اور آج بھی سفر تکلیف دہ ہی ہوتا ہے۔ بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ سفری تکالیف نے اپنی شکلیں بدل لی ہیں۔
اگر ہم صرف بذریعہ ہوائی جہاز سفر کی بات کریں تو اس سفر میں کئی ایسے قواعدوضوابط ہوتے ہیں جن کا خیال رکھنا، ان پر عمل پیرا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ان پابندیوں پر عمل کرنا واقعی تکلیف دہ ہوتا ہے، لیکن دوران سفر ان پر عمل کرنا نہایت ضروری بھی ہے تاکہ آپ اور دیگر مسافر کسی بڑی پریشانی سے محفوظ رہ سکیں۔ کیونکہ کسی ایک مسافر کی ذرا سی لاپرواہی سب کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے۔
جہاز میں سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ انہیں صرف اور صرف اپنی نشستوں تک ہی محدود کر دیا جاتا۔ اب وہ نشستیں کتنی آرام دہ ہیں، اس کا بات اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو ان پر تشریف فرما ہیں۔ بیماری کی حالت میں آرام دہ نشست پر بیٹھ کر، ٹیک لگا کر، ٹانگیں پھیلا کر بھی سفر کرنا بار گراں محسوس ہوتا ہے۔ جہاز کے سفر کے دوران جہاز میں چہل قدمی کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں وہ الگ بات کہ آپ نشست سے اُٹھ کر ٹوائلٹ تک جائیں، پھر وہاں سے واپس آ جائیں اور اس آنے جانے کے مختصر سے عمل کو چہل قدمی سے تشبیہ دے دیں۔ سیٹ بیلٹ باندھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی سیٹ بیلٹ باندھتے ہیں یا پھر آُپ کو باقاعدہ طور پر ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تو معلوم یہ ہُوا کہ ایسے بہت سے کام ہوتے ہیں جو دوران سفر آپ کو اپنی اور سب کی سیفٹی کے لیے کرنے پڑتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ آپ کسی قسم کا احتجاج بھی نہیں کر سکتے۔ عملے سے اُلجھ نہیں سکتے۔ اور ایسا کرنا ویسے بھی بااخلاق و باشعور لوگوں کا شیوہ نہیں۔ ہوائی جہاز میں سفر کرتے وقت ہوائی میزبانوں سے، مسافروں سے الجھنا، یا بحث مباحثہ کرنا آپ کے لئے نئی مصیبتیں بھی کھڑٰی کر سکتا ہے۔
ریل گاڑی میں سفر کرنے والوں کو بھی اس ترقی یافتہ دور میں بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ کس طرح کی مشکلات و تکالیف ہوتی ہیں۔ سفر کرنے والے بخوبی جانتے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر کوچز میں سفر کرنے والے بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اگر مسافرں کی راہنمائی کرنے والا عملہ خوش اخلاق نہ ہو تو ذہنی اذیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ ائر پورٹ ہو یا ریلوے اسٹیشن یا پھر کوجز کا اڈہ مسافروں کو طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
ریلوے اسٹیشن، ریزرویشن کروانے جائیں تو کمپیوٹر خراب ہونے کی وجہ سے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے کھڑے کئی گھنٹے گزر جاتے ہیں۔ ریزرویشن کرنے والا عملہ سب کو بس اتنا بتا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے کہ سسٹم کام نہیں کررہا۔ سسٹم ڈاؤن ہے۔ پوچھا جائے کہاں سے ڈاؤن ہے تو جواب ملتا ہے، کراچی سے ڈاؤن ہے اور اگر کراچی والے پوچھیں کہاں سے سسٹم ڈاؤن ہے، تو انہیں یہ جواب دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے کہ رالپنڈی سے سرور ڈاؤن ہو گیا ہے۔ اس لیے یہاں آپ سب کو دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ابھی سفر کا آغاز بھی نہیں ہُوا لیکن مشکلات نے گھیرنا شروع کردیا۔۔ اور کچھ ایسی ہی صورتحال کوچز کے اڈوں پر ہوتی ہے۔ جہاں مذہبی تہوار قریب آتے ہی کرایوں میں سوفیصد اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ دورانِ سفر ایک بار پیپسی اور رات کے کھانے میں ایک روٹی کے ساتھ ایک چکن پیس دے کر ایسا لگتا ہے جیسے مسافروں پر بہت بڑا احسان کیا جا رہا ہو۔ سفری میزبان ایسے کہ بداخلاقی کی چلتی پھرتی تصویریں!
اگر ہم ائرپورٹ کی بات کریں تو متعدد بار ایسا بھی سننے کو ملا کہ جناب پرواز میں ابھی تاخیر ہے، یا پرواز منسوخ کر دی گئی ہے۔ لیں جی! گھر سے نکلے تھے سفر کرنے کے لیے اور پتا چلا پرواز منسوخ کر دی گئی۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب موسم خراب نہ بھی ہو، تب بھی پرواز منسوخ کر دی جاتی ہے اور ایسی صورتحال میں مسافروں کو جس ذہنی تناؤ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں۔
رَن وے پر کھڑے سعودی ائرلائن کے طیارے میں ہوائی میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والا عملہ پوری طرح چاک وچوبند اور تازہ دم تھا۔ فضائی میزبان لڑکیوں کے چہروں پر ہلکی سے مسکراہٹ اور مسافروں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا سب کے سامنے تھا اور ایسا کرنا یقیناً ان کی ڈیوٹی میں شامل ہو گا یا ہو سکتا ہے وہ سب عام زندگی میں بھی اتنے ہی خوش اخلاق ہوں!
کچھ ہی دیر بعد جہاز میں نسوانی آواز گونجتی ہے۔ مسافروں کو خوش آمدید کہنے کے بعد مختلف ہدایات دی جاتی ہیں، جن میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ اپنے اپنے سیل فونز آف کردیں۔ خیر تمام ہدایات سُننے کے بعد بیلٹ کس لیے گئے اور چند ہی لمحوں بعد جہاز میں حرکت پیدا ہو چکی تھی۔ مَیں چونکہ کھڑکی والی سائیڈ پر بیٹھی تھی، اس لیے رَن وے پر جہاز کی بتدریج بڑھتی ہوئی رفتار معلوم ہو رہی تھی۔ جہاز نے ایک خاص رفتار تک پہنچنے کے بعد جب ہوا مِیں اُڑان بھری تو ہلکے سا جھٹکا محسوس ہُوا اور اب یہ کہا جا سکتا تھا کہ جہاز زمین چھوڑ کر کُھلی فضاؤں مِیں سینہ تانے بلندیوں کی طرف جا رہا ہے اور چند ہی سیکنڈز بعد لاہور شہر بلندی سے بونوں کی بستی لگ رہا تھا، جہاں چھوٹی چھوٹی، ننھّی مُنّی سی عمارتیں اور چھوٹی چھوٹی سی سڑکیں، کہیں کہیں ہریالی اور خشکی سب ایک ساتھ دیکھ رہی تھی۔ ……… (جاری ہے)

Post a Comment

0 Comments